رشوت کیاہے؟
آج جب کہ زمانہ
بہت تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے اورآئے دن نت نئی ایجادات
سامنے آرہی ہیں،ایسے ترقی یافتہ دورمیں رشوت
کی کوئی خاص شکل وصورت متعین نہیں ہے، اور اب صرف کاغذکے
چندنوٹوں کے لین دین کانام رشوت نہیں ہے؛بلکہ زمانہ اورحیثیت
کے اعتبارسے رشوت کی شکلیں بھی مختلف ہوتی رہتی ہیں،اگرکوئی
عام آدمی کسی کلرک کورشوت دیتاہے تووہ وہ چندنوٹوں کی شکل
میں ہوتاہے،لیکن اگریہی رشوت کوئی خاص شخص کسی
بڑے عہدہ دار، مثلاً وزیریاکسی بڑے صاحبِ منصب کو دیتاہے
تووہ کبھی بنگلہ،موٹرکاریاپھرکسی بیرون ملک کے سیاحتی
ٹکٹ وغیرہ کی شکل میں ہوتاہے، جسے وہ ہدیہ یانذرانہ
کاخوبصورت نام دے دیتاہے؛لیکن درحقیقت وہ رشوت کی ترقی
یافتہ شکل ہوتی ہے؛اس لیے صرف کاغذکے چند نوٹوں کے لین دین
کوہی رشوت نہیں کہہ سکتے،اس کے علاوہ بھی ہروہ شئی جواپنے
جائزیاناجائز مقاصد کوحاصل کرنے کے لیے کسی اہل منصب کودیاجائے
گاوہ رشوت ہی ہوگا۔
مجمع البحارمیں علامہ فتنی
نے بھی رشوت کی تعریف کی ہے: ”رشوت کے معنی یہ
ہیں کہ کوئی شخص اپنی باطل غرض اورناحق مطالبہ کے پوراکرنے کے لیے
کسی ذی اختیاریاکارپردازشخص کوکچھ دے“ ۔(مجمع
البحاربحوالہ علامہ سیدسلیمان ندوی)
رشوت اسلام کی
نظرمیں:
رشوت کی مذمت اوراس کے لینے
اوردینے والوں پراللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے بڑی سخت وعیدیں بتائی ہیں،حضرت
عبداللہ بن عمرر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:”رشوت لینے اوردینے والے پراللہ کی
لعنت برستی ہے“۔(رواہ ابن ماجہ)
ایک دوسری حدیث میں
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایاکہ”رشوت لینے اوردینے والا دونوں ہی دوزخ میں
جائیں گے“۔ (طبرانی)
رشوت کی
دلالی کرنے والابھی ملعون:
اسلام کی نظرمیں جس طرح
رشوت لینے اوردینے والاملعون اوردوزخی ہے، اسی طرح اس
معاملہ کی دلالی کرنے والابھی حدیث رسول کی روشنی
میں ملعون ہے۔صحابی رسول حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اوردینے
والے اوررشوت کی دلالی کرنے والے سب پرلعنت فرمائی ہے“۔(رواہ
احمدوطبرانی)
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ
عنہ تویہاں تک فرماتے ہیں کہ قاضی کاکسی سے رشوت لے کراس
کے حق میں فیصلہ کرناکفرکے برابرہے،اورعام لوگوں کاایک دوسرے سے
رشوت لینا”سُحت“یعنی حرام ناپاک کمائی ہے۔(طبرانی)یہی
وجہ ہے کہ پوری امت رشوت کے حرام ہونے پرمتفق ہے۔
رشوت دینے کی گنجائش کب ہوسکتی
ہے؟
لغت میں”رشوت“کے معنی ہیں
وہ نذرانہ جواپنے مقصدکی تکمیل کے لیے کسی کوپیش کیاجائے،خواہ
وہ مقصدجائزہویاناجائز؛اسی لیے امام ابوسلیمان خطابی
اس حدیث کامفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”رشوت لینے
اوردینے والے دونوں شخص گناہ وسزاکے مستحق اس وقت ہوں گے،جب کہ دونوں کامقصدباطل
اورناحق کی حمایت کرناہو،کسی پرظلم کرنایاکراناہویاشرعی
حکم کی پامالی ہو،مثلاًایک شخص جس کاایک چیزمیں
شرعاًکوئی حق نہیں بنتا،وہ صاحب اختیارکورشوت دے کراپنے حق میں
فیصلہ کرالیتاہے یاایک چیزایک شخص کی
ملکیت یااس کاحق ہے،اس کے پاس ثبوت بھی ہیں،جواس نے فراہم
کردیے،مگردوسراشخص رشوت کے زورپرصاحب اختیارسے اس کے خلاف فیصلہ
کرالیتاہے،تاکہ حق دارکواس کاحق نہ مل سکے،مذکورہ حدیث کی روشنی
میں یہ رشوت دینابلاشبہ لعنت کاسبب ہے۔
اسی طرح رشوت لینے والاشخص
بھی وعیدکامصداق اس وقت ہوگا،جب اس نے ایسے حق یاعمل کی
انجام دہی پررشوت لی ہوجواس کے اوپرازروئے شریعت واجب ہے،یاوہ
کوئی کام ایساکررہاہے،جس کے کرنے کاکوئی جوازنہیں
اوردوسرے کااس سے نقصان ہورہاہے،جب تک اس کی مٹھی گرم نہ کی
جائے،وہ اپنے اس ناحق عمل سے دست بردارہونے کے لیے تیارنہ ہو، مندرجہ
بالاحدیث کی روشنی میں ایساشخص ملعون ہے۔
البتہ ایک شخص کاحق ہے کہ جواسے
ملناچاہیے،رشوت دیے بغیرنہیں ملے گا،یااتنی دیرسے
ملے گا،جس میں اسے غیرمعمولی مشقت برداشت کرنی پڑے گی۔اسی
طرح اس کے اوپرکسی فردکی طرف سے ظالمانہ مطالبات عائدہوگئے ہیں
اوررشوت دیے بغیران سے خلاصی مشکل ہے توامیدہے کہ دینے
والاشخص گناہ گارنہ ہوگا،البتہ دیانت شرط ہے جس کی ذمہ داری
خوداس پرہوگی۔اسی طرح ایک شخص حکام اورارباب اختیارکے
نزدیک اپنی ذاتی وجاہت کی وجہ سے باحیثیت
ماناجاتاہے،اگرایسے شخص کے ذریعے اپناجائزحق وصول کرنے کے لیے
حاکم تک رسائی حاصل کی جائے اوروہ شخص جس پراس کام کی شرعاًکوئی
ذمہ داری نہیں ہے،حق الخدمت کے طورپرکچھ وصول کرتاہے تویہ اس کے
لیے حلال ہوگا،کیوں کہ یہ نہ توباطل کی اعانت ہے،نہ کسی
پرظلم ہے اورنہ ہی اس پریہ کام کرناازروئے شریعت واجب ہے،لیکن
نہ لیناموجب اجروثواب ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کاارشادہے:سفارش کردو،ثواب پاوٴگے۔تجربہ شاہدہے کہ جن ناگوارحالات میں
رشوت دینی پڑتی ہے ،ان میں دینے
والاتومجبورہوتاہے،مگرلینے والامجبور نہیں ہوتا۔
رشوت اورقوم یہودکاشیوہ:
علامہ سیدسلیمان ندوی
نے اسلام سے قبل زمانہٴ جاہلیت میں رشوت کے چلن پرروشنی ڈالتے
ہوئے لکھاہے کہ عرب کے کاہن اپنی مفروضہ غیبی طاقت کی
بناپربعض مقدموں کے فیصلے کرتے تھے،اہل غرض ان کواس کے لیے مزدوری
یارشوت کے طورپرکچھ نذرانہ دیتے تھے،اس کوحلوان (مٹھائی)کہتے
تھے،اسلام آیاتواوہام کایہ دفترہی اڑگیا،اس پربھی
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہن کے حلوان کی خاص طورسے
ممانعت فرمائی۔(ترمذی،باب ماجاء فی کراہیة مہرالبغی)
اسی طرح عرب میں یہودیوں
کے مقدمے ان کے احباراوررئیس فیصل کرتے تھے ،قانون کی زدسے بچنے
کے لیے مال داراوراہل ثروت طبقہ علانیہ رشوت دیتے اوران کے کاہن
اورقاضی یہ رشوت لے کران کے حق میں فیصلہ سنادیتے
تھے،اوراتناہی نہیں؛بلکہ توراة کے احکام پرپردہ ڈالتے تھے۔ (صحیح
بخاری)چنانچہ توراة کے قوانین میں تحریف کاایک
بڑاسبب یہی رشوت خوری تھی،قرآن مجیدکی اس آیت
میں اسی گناہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ
یَکْتُمُوْنَ مَا أنْزَلَ اللہُ مِنَ الْکِتَابِ وَیَشْتَرُوْنَ بِہ
ثَمَنًا قَلِیْلاً، أولٰئِکَ مَا یَأکُلُوْنَ فِیْ
بُطُوْنِھِمْ الاّ النَّارَ وَلاَ یُکَلِّمُھُمُ اللہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ
وَلاَ یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ ألِیْمٌ۔(بقرة:۲۱)
ترجمہ:خدانے کتاب سے جواتارااس کوجوچھپاتے
ہیں اوراس کے ذریعہ معمولی معاوضہ حاصل کرتے ہیں،وہ اپنے
پیٹوں میںآ گ ہی بھرتے ہیں،خداان سے قیامت کے دن
بات نہ کرے گا،نہ ان کوپاک صاف کرے گااوران کے لیے دردناک عذاب ہے۔
پیٹ میںآ گ بھرنے سے مرادیہی
حرام کی کمائی رشوت ہے۔
عہدنبوت میں خیبرکے یہودیوں
سے زمین کی آدھے آدھ پیداوارپرمصالحت ہوئی تھی، جب
پیداوارکی تقسیم کاوقت آتاتوآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ
بن رواحہ رضی اللہ عنہ کوبھیجتے،وہ ایمانداری سے پیداوارکے
دوحصے کردیتے تھے اورکہہ دیتے تھے کہ ان دومیں سے جوچاہولے لو، یہودیوں
نے اپنی عادت کے مطابق ان کوبھی رشوت دینی چاہی،آپس
میں چندہ کرکے اپنی عورتوں کے کچھ زیورات اکٹھے کیے
اورکہاکہ یہ قبول کرو،اوراس کے بدلہ تقسیم میں ہمارا حصہ
بڑھادو، یہ سن کرحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”اے
یہودیو!خداکی قسم تم خداکی ساری مخلوق میں
مجھے مبغوض ہو،لیکن یہ مجھے تم پرظلم کرنے پرآمادہ نہیں
کرسکتااورجوتم نے رشوت پیش کی ہے وہ حرام ہے،ہم(مسلمان)اس کونہیں
کھاتے۔“یہودیوں نے ان کی تقریرسن کرکہاکہ”یہی
وہ انصاف ہے جس سے آسمان وزمین قائم ہیں۔“(موطاامام مالک،کتاب
المساقاة)
عاملین زکوٰة
کاہدیہ یانذرانہ قبول کرنا:
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمال
کورعایاسے ہدیہ اورتحفہ قبول کرنے کی ممانعت فرمائی ہے
(ابوداوٴد،کتاب الاقضیہ)،ایک دفعہ ایک عامل نے آکرکہاکہ یہ
صدقہ کامال ہے اوریہ مجھے ہدیہ میں ملاہے،یہ سن کرآں
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
منبرپرکھڑے ہوکرتقریرکی،حمدوثناکے بعدفرمایا:
”عامل کاکیاحال ہے کہ ہم اس کوبھیجتے
ہیں توآکرکہتاہے کہ یہ تمہاراہے اوریہ میراہے، تو اپنے
باپ یاماں کے گھرمیں بیٹھ کرنہیں دیکھتاکہ اس
کوتحفے ملتے ہیں یانہیں،قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں
میری جان ہے،وہ اس میں سے جولے جائے گاوہ قیامت میں
اپنی گردن پرلادکرلائے گا، اونٹ،گائے،بکری جوہو،پھرآپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاکر تین بارفرمایا:”خداوند!میں
نے پہنچادیا۔“(صحیح بخاری،باب ہدایاالعمال)
اس حدیث میں غورکریں
اورموجودہ دورکے عمال(یعنی مدرسہ اورملی تنظیموں کے
سفراء) پرنظرڈالیں کہ جب وہ رمضان میں سفرسے واپس اپنے گھروں کولوٹتے
ہیں توان کے پاس ہدایاوتحائف کی کتنی بڑی تعدادہوتی
ہے بالخصوص مہتمم ،نظماء اورسکریٹری حضرات،پھرفیصلہ کریں
کہ ان کایہ ہدایا اور تحائف قبول کرنامذکورہ حدیث کی روشنی
میں کیساہے؟
رشوت کی
برائی قرآن میں:
رشوت کی ممانعت میں قرآن کریم
کی ایک اورآیت صریح طورپردلالت کرتی ہے:
وَلاَ
تَأکُلُوْا أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِھَا الیٰ
الْحُکَّامِ لِتَأکُلُوْا فَرِیْقًا مِنْ أمْوَالِ النَّاسِ بِالْاثْمِ
وَأنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ:(البقرة:۱۸۸)
تر جمہ:اورنہ کھاوٴ مال ایک
دوسرے کاآپس میں ناحق اورنہ پہونچاوٴ ان کوحاکموں تک کہ کھاجاوٴ
کوئی حصہ لوگوں کے مال میں سے ظلم کرکے(ناحق)ا ورتم کومعلوم ہے۔
علامہ ابن کثیرنے اس آیت کی
تفسیربیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ یہ آیت ایسے شخص کے
بارے میں ہے جس کے پاس کسی کاحق ہو؛لیکن حق والے کے پاس ثبوت نہ
ہو،اس کمزوری سے فائدہ اٹھاکروہ عدالت یاحاکم مجازسے اپنے حق میں
فیصلہ کروالے اوراس طرح دوسرے کاحق غصب کرلے۔یہ ظلم ہے اورحرام
ہے۔عدالت کافیصلہ ظلم اورحرام کوجائزاورحلال نہیں کرسکتا۔یہ
ظالم عنداللہ مجرم ہوگا۔(ابن کثیر)
مفتی اعظم پاکستان مفتی
محمدشفیع صاحب رحمة اللہ علیہ آیت مذکورہ کی تفسیرمیں
حلال وحرام کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”شریعت اسلام
میں جتنے معاملات باطل یافاسداورگناہ کہلاتے ہیں ان سب کی
وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان میں وجوہِ مذکورہ میں کسی
وجہ سے خلل ہوتاہے،کہیں دھوکہ فریب ہوتاہے،کہیں نامعلوم چیزیانامعلوم
عمل کامعاوضہ ہوتاہے، کہیں کسی کاحق غصب ہوتاہے،کہیں کسی
کونقصان پہونچاکرنفع حاصل کیاجاتاہے،کہیں حقوق عامہ میں ناجائز
تصرف ہوتاہے، سود، قماروغیرہ کوحرام قراردینے کی اہم وجہ یہ
ہے کہ وہ حقوق عامہ کے لیے مضرہیں،ان کے نتیجہ میں
چندافرادپلتے بڑھتے ہیں، اور پوری ملت مفلس ہوتی ہے،ایسے
معاملات فریقین کی رضامندی سے بھی اس لیے
حلال نہیں کہ وہ پوری امت کے خلاف ایک جرم ہے،آیت مذکورہ
ان تمام ناجائزصورتوں پرحاوی ہے۔“(معارف القرآن:۱/۴۵۹)
یہ آیت اپنے ترجمہ کے لحاظ
سے رشوت کی ممانعت میں صاف وصریح ہے؛کیوں کہ رشوت بھی
ایک ایساعمل ہے جس کااثرحقوق عامہ پربراہ راست پڑتاہے،اوراس کی
وجہ سے حقدارکاحق ماراجاتاہے۔
موجودہ دورمیں
رشوت کااطلاق کن چیزوں پرہوگا؟
اب یہاں پرایک سوال پیداہوتاہے
کہ موجودہ دورمیں کن طریقوں کورشوت کہیں گے، تو اس کاسیدھااورآسان
جواب یہ ہے کہ مذکورہ بالا احادیث اورقرآنی آیتوں کی
روشنی میں ہروہ لین دین جوشریعت کے خلاف ہو،اورکسی
کاحق مارنے کے لیے ہویااسی طرح غیرشرعی افعال
کوانجام دینے کے لیے کچھ لیایادیاجارہاہووہ سب رشوت
کے دائرہ میںآ ئیں گے۔
مثلاً:اس وقت
ذرائع ابلاغ سب سے موٴثراورطاقتورذریعہ ہے اپنی بات لوگوں تک
پہونچانے اوراپنے مقاصدکوحاصل کرنے کا۔توہروہ شخص جو غیرشرعی
طورپراپنی بات اخبار میں شائع کرانے کے لیے یااپنے کسی
مدمقابل کونیچادکھانے کے لیے کوئی خبراخبارمیں شائع
کراتاہے اورظاہرہے کہ اس طرح کی خبریں جوشخصی ہوتی ہیں
اخباروالے بھی بغیرکچھ لیے دیے شائع نہیں کرتے تویہ
دینااوراخباروالے کالینادونوں شرعاًبھی حرام ہیں اورصحافتی
وقانونی نقطئہ نظرسے بھی حرام ہے۔یہ توایک چھوٹی
سی مثال تھی،آج کی دنیامیں قدم قدم پررشوت کا سامنا
کرنا پڑتا ہے، اوراس کاچلن سب سے زیادہ سرکاری دفاتر اور محکموں میں
دیکھنے کوملتاہے اوریہ جگہیں ایسی ہیں جہاں ایک
نیک اوردین دارشخص کوبھی اپناحق حاصل کرنے کے لیے رشوت
کاسہارالینا پڑتاہے؛ کیوں کہ اگروہ رشوت نہیں دیتے ہیں
تووہ اپنے حق سے محروم رہ جائیں گے،ایسے معاملات میں جہاں
اپناحق حاصل کرنے کے لیے بہ جبرواکراہ رشوت دینی پڑتی ہے،
اسے توفقہاء نے کسی حدتک جائزقراردیاہے؛ لیکن رشوت لیناہرحال
میں حرام اورناجائزہے۔
جان یامال
پرخوف کی وجہ سے رشوت دینے کی گنجائش :
آخرمیں
رشوت دینے اورلینے سے متعلق فقیہ العصرحضرت مولاناخالدسیف
اللہ رحمانی مدظلہ العالی کی ایک عبارت نقل کرناچاہتاہوں،جس
میں انہوں نے علامہ ابن نجیم کے حوالہ سے رشوت لینے اوردینے
کی حرمت بیان کی ہے،مزیدیہ کہ رشوت دینے کی
گنجائش کن صورتوں میں ہوسکتی ہے ؟
”رشوت لیناجس طرح حرام ہے، اسی
طرح اصولی طورپررشوت کادینابھی حرام ہے،اس سلسلہ میں
فقہاء کے یہاں ایک متفق علیہ اصول ہے کہ جس چیز کا لینا
جائزنہیں اس کادینابھی جائزنہیں۔
”مَاحَرُمَ أخْذُہٗ حَرُمَ اعْطَائُہٗ“ البتہ چوں
کہ رشوت لیناکبھی بھی مجبوری نہیں بن سکتی
اوررشوت دینابعض دفعہ مجبوری بن جاتی ہے؛اس لیے فقہاء نے
ضرورت اورمجبوری کے مواقع پررشوت دینے کی اجازت دی ہے
اوراس سلسلہ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کوپیش
نظر رکھاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ شرپسندشعراء کواس لیے
کچھ دیاکرتے تھے کہ وہ بے ہودہ ہجوپرمبنی اشعارکہنے اور مسلمانوں
کوبدنام کرنے سے اجتناب کریں۔
رشوت دینے کی گنجائش کب ہوگی؟اس
سلسلہ میں فقہاء نے یہ اصول متعین کیاہے کہ اگررشوت نہ دے
توناحق طریقہ پراس کوجانی یامالی نقصان کا اندیشہ
ہویایہ اندیشہ ہوکہ جس ذمہ دارکے پاس اس کی درخواست زیرغورہے،
وہ اس کے ساتھ انصاف سے کام نہ لے گااوراس کے اوردوسرے امیدواروں کے درمیان
مساویانہ سلوک روانہیں رکھے گا۔
علامہ ابن نجیم
لکھتے ہیں:
”اَلرِّشْوَةُ
لِخَوْفٍ عَلیٰ نَفْسِہ أوْ مَالِہ أوْ لِیُسَوِّيَ أمْرَہ
عِنْدَ السُّلْطَانِ أوْ أمِیْرٍ“ (ردالمحتار:۴/۳۴۰ بحوالہ جدیدفقھی
مسائل:۱/۳۰۰)
جان یامال پرخوف کی وجہ سے
نیزاس لیے کہ سلطان یاامیر کے پاس معاملہ کی صحیح
صورتِ حال رکھے رشوت دینے کی گنجائش ہے یہ ممنوع صورتوں سے
مستثنیٰ ہے۔
اللہ ہمیں اس برائی سے
محفوظ رکھے ! (آمین )
***
-----------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 - 8
، جلد: 97 ، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی - اگست 2013ء